
شمس پناہ کا تعلق علاقہ کوشٹ کے محمد بیگہ قبیلے سےتھا۔ آپ کے والد محمد صادق کو مہترامان الملک کے دور حکومت میں اسکے ایماء پرشغورمیں قتل کیا گیا تھا۔ آپ کی خاندان اس وجہ سے مہتر شیرافضل کے ربردست حامی تھے۔ آپ کو لوک روایات میں “رابطو میجر” کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ جب سردار نظام الملک سے اکژ امراء ان کی انتظامی پالیسیوں کی وجہ خفا تھیں تو چترال کے کچھ امراء نے سردارنظام الملک کو راستے سے ہٹانے اور ان جگہ شہزادہ امیر الملک کو مہتر بنانا چاہتے تھے۔ اس حکومت مخالف گروپ نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یکم جنوری ۱۸۹۵ء میں ایک میٹنگ کی جس میں درج ذیل افراد شریک ہوےَ
۱۔ عبدالرحمن ایون
۲۔ نعرہ جنگ مولکھو
۳۔ معظم خان لال شالی
۴۔ محمد لطیف خان دمیک
۵۔ شہزادہ خان لال بروز
۶۔یادگاربیگ کلدام
۷۔ عباداللہ خان یارخون
یکم جنوری کے سہ پہر مہتر سردار نظام الملک کو احمد جان سکنہ لاوی نے دنبالہ پُر کے ذریعے کوڑ بروز قتل کر دیا تو اس کے بعد اس گروپ نے مہتر جو محمد علی بیگ کے زیر قیادت گارڈن ملکی سے ملاقت کی اور شہزادہ امیر الملک کو مہتر بنانے کا مطالبہ کیا۔ مہتر امیر الملک نے شمس پناہ کو علاقہ کوشٹ کے لیے چارویلو مقرر کیا اور دو ماہ تک اس عہدے پر رہے۔
اس واقعے کے چند دن بعد شہزادہ شیر افضل نے کابل سے چترال آکر انگیزوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو شمس پناہ نے بھی آخری دم تک ان کا ساتھ دیا۔
۱۹۰۹ء میں جب ریاستی باڈی گارڈ کا اعلان کیا گیا تو سب سے پہلے شمس پناہ کو اس کے بروا ۱ محمد بیگہ کمپنی کے لیے صوبیدار مقرر کیے گئے- تیسری افغان جنگ میں کے دوران آپ علاقہ بمبوریت کی حفاظت کے لیے مقرر ہوےَ۔ ۱۹۲۰ء میں آپ کو صوبیدار میجر کے پوزیشن پر ترقی دی گئ۔
۱۹۲۵ء میں شمس پناہ کو عدلیہ کونسل کے نامزد کیا گیا۔ آپ کو ۱۹۳۷ء میں حاکم کوشٹ مقررہوےَ اور چند ماہ تک اس عہدے میں رہے۔
آپ کی انتقال کے بعد اپ کے فرزند میاں گل جان صوبیدار ہوےَ۔ آپ کی اولاد موجودہ دور میں رابط کوشٹ اور مروئی میں آبادہیں۔ آپ علاقے میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے لیے خدمات بھی ناقابل فراموش ہے۔
Sources : Secret documents of administration DC office Chitral and Judicial council documents ex Judicial council Chitral.