دیر اور سوات کے موجودہ کوہستانات کو چترال میں قدیم دور سے بشقار کا نام دیا جاتا تھا مگرخود وہاں کے باشندوں میں یہ نام معروف نہیں تاہم اس نام کا ذکرسترہ ویں صدی کی ایک کتاب میں پہلی بار پڑھنے کو ملتا ہے جس میں چترال کے اس وقت کے شاہ کو “والئ چترار و بشقار” لکھا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ کوہستان بھی باہر کے لوگوں کا رکھا ہوا فارسی نام ہے۔ بشقار اور چترال کو شیشی کوہ، ڑاسپور اور غزر کے درے قدیم زمانے میں ملاتے تھے مگر اب یہ متروک ہیں۔
یہاں کے اصل باشندے ہم نسل اور ہم زبان گاوری ہیں اور نورستان سے لیکر چیلاس تک کے دردی آرئیای باشندوں کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ چترال اور دوسرے علاقوں کی طرح وہاں پر بھی لمغان، کونڑ، پیچ درہ، وائگل سے کلاشہ، نورستانی اور گجر نسل کے لوگ بھی آکر گاوری آبادی کا حصہ بن چکے ہیں۔ مطالعہ بتاتا ہےکہ وہاں کے قدیم غیر مسلم باشندوں کو کلاش یا باشگلی نہیں،’سپین کافر’ اور ‘تورکافر’ وغیرہ ناموں سے پکارا جاتا تھا۔
ان کوہستانات میں یوسفزئ پشتونوں اور آخون سلاک، آخون سباک، دیر نوابان کے جد آخون الیاس وغیرہ نے اسلام پھیلانےکا کام سترہ ویں صدی میں انجام دیا۔ ایک اور روایت کے مطابق اسلام پھیلانےکاکام اٹھارہ سو چار میں خان دیر غزن خان کے دور میں مکمل ہوسکا تھا۔ (اس دور میں غزن خان نہیں خان ظفر خان حکمران تھا ۔صحرائ) ۔
سوات کے معزول گبر سلطان اوئیس کا بیٹا قزان شاہ سوات کوہستان میں ایک جگہ مقیم ہوکر یوسف زئ علاقوں پر داڑے مارا کرتا تھا۔ ایک بار غالبا 1552-53میں وہ یوسفزئوں کے خلاف فوجی مدد کی غرض سے اس وقت کے کاشغری حکمرانوں کے پاس چترال آیا اس وقت چترال کا نام قشقار تھا۔۔ وہ یہاں سے امدادی فوج لیکرسوات بشقار گیا تھا چنانچہ قزانشاہ کے اس حملےکا ذکر تواریخ رحمت خانی کے حوالے سے ہولزوارتھ نے کیا ہے۔ ۔۔۔۔”کاشغر سوات اور پنجکوڑہ کے قریب شمال میں واقع تھا۔(قزان شاہ کی لائ ہوئ) فوج کے کاشغری ترک زبان بولنے والے سنی مسلمان تھے جبکہ انکی رعایا سب کے سب کافر تھے۔” قزان شاہ بہرحال اس جنگ میں شکست کھا گیا اور کچھ عرصہ بعد اسے یوسفزئوں نے گھات لگاکر قتل کرڈالا۔
بعد کےحالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تعلق باجگزاری سے زیادہ نہیں تھا۔
گمان کیا جاتا ہے کہ باجگزاری کا یہ سلسلہ چترال میں کاشغری عملداری یا یہاں پر رئیسہ حکمرانی کے قیام کے بعد شروع ہواتھا مگر تفصیلات واضح نہیں۔ ان کوہستانات پر دیر اور سوات کے باقاعدہ قبضے تک