لفظ ‘کھو’کی قدامت اور kho aspis
کی حقیقت۔۔۔
جان بڈلف جب 1878 میں مہتر امان الملک کے دور میں چترال آیا تو سنا کہ یہاں اکثریت کی زبان کو کھوار کہا جاتا ہے، لہذا توری کھو اورموڑی کھو کی مناسبت سے کھو قوم کی بابت اپنے مفروضے بھی پیش کئے جن میں سکندر اعظم یونانی کے حملے کے دوران 326 ق- م۔ میں کونڑ کے علاقے میں موجود یونانی سکرپٹ کے-aspis قبیلے کے نام کو دریا کا نام سمجھا اور اسکے ساتھ لگے یونانی زبان کے سابقے ‘ev’ کو ‘کھو’ تصور کرلیا کیونکہ یونانی ابجد کا ev رومن میں xo میں تبدیل ہوتا ہے اور اس xo کو kho سمجھا اور اس طرحev-aspis کو kho- aspis ترتیب دیکر دریائے کھو میں تبدیل کردیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنے اس مفروضے کے تحت اس نے دریائے کابل کے سسنسکرت نام kophen یا cophen میں بھی ‘کھو’ ڈھونڈ نکالا، کونڑ کے علی شینگ دریا “خوئس” کےلئے سکرپٹ میں موجود ‘choes’ میں بھی اسکو ‘کھو’ تلفظ ملا، یہ تو خیر اس نے کیا مگر یہ بھی کیا کہ سوات کے اوپر کسی پہاڑ comedan کو بھی ‘کھو’ سے منسوب قرار دیا کہ اس میں بھی ko کی آواز آتی ہے۔۔۔ پھر اس نے یہ فرض کرلیا کہ کھو ایک کثیرالتعداد قوم تھی اور یہ نہ صرف موجودہ کھو علاقے کے لوگ ہیں بلکہ یہ کونڑ تک کسی وقت پھیلے ہوئے تھے بعد میں آکر کھو علاقے تک محدود ہوئے ہیں۔وغیرہ۔۔اسی فارمولے کو آرل سٹائن نے 1927 میں آگے بڑھایا، پھر مہترناصرالملک مرحوم نے 1940-43 کے دوران نئ تاریخ چترال کے مسودے میں اس مفروضے کو بیغیرکسی مزید تحقیق کے شامل رکھا-
کاپیسا سے لےکر دیر و سوات چترال اور گلگت کے علاقوں تک انڈو یورپی زبانیں بولنے والے لوگ سکندر کے وقت سے بھی پہلے داردی نام سے آباد تھے اورکنہار پرحملے کے وقت وہاں کے باشندے “آسپی” کہلاتے تھے اور دریا کا نام Euaspla لیاگیا تھا۔ مگر بہت بعد کے دیگر یونانی لکھاریوں نے عمدہ گھوڑوں کی نسبت سے وہاں کے باشندوں کا نام kho Aspis یعنی”اچھے گھوڑے والوں” کےنام سے محفوظ کیا دریا کے نام سے نہیں۔
لفظ ‘اسپی’ کسی زبان میں دریا کا نام نہیں بلکہ یونانی میں دریا کو Potami یا potamus کہا جاتا ہے۔ وہ لوگ اعلی نسل کےگھوڑ پالتے تھے،اس لحاظ سے اویستا زبان میں’اسوا’کہلاتے تھے، سسنکرت بولنے والوں نے اسکا تلفظ Aswakiyana یا Aswaka کیا تھا. دونوں کے معنی شہسوار لیا جاتا تھا۔ بعد میں ایرانی اثرات کے تحت فارسی میں اسپی بنا۔
لگتا ہے کہ ان کے کچھ لوگ پہلے کسی وقت کونڑ اور باجوڑ سے ہوتے ہوئے دیر اور سوات کے علاقوں تک پہنچ چکے تھے اسکا ثبوت یہ ہے کہ یونانی ذرائع کے مطابق سوات اور دیر کے علاقوں میں ان لوگوں کی شناخت Aswakaکےطور پر جاری تھی جسے یونانیوں نے بالترتیب assakenioi اورGouraoi لکھا ہے۔
علاقے میں اعلی گھوڑوں کی موجودگی کے شواہد کے طور پر ہوانگ تسنگ (644ء) کے حوالے سے بتا یا جاتا ہے کہ اس نے اپنی کتاب میں کاپیسا میں “شن” نام کے عالی نژاد گھوڑوں کا ذکر کیا ہےاور 637 ء میں کاپیسا سے اعلی نسل کے گھوڑوں کا تحفہ چین کے شاہنشاہ Tai Tsung کو بھیجنے کی بات بھی کی جاتی ہے۔
اس تاریخی پسمنظر کے علاوہ مذہبی، لسانی، تمدنی،سماجی اور معاشی پہلوو سے بھی اگر دیکھا جائے تو مجھے نہیں لگتا کہ ‘کھو’ کہلانے والے لوگوں کا جنوب کے ان اسپیوں سے کسی قسم کا نسلی یا جغرافیائ تعلق ہو ہاں البتہ وہ قدیم لوگ ان کا حصہ ہوسکتے ہیں جو چترال کی طرف آئے جنہیں اب کالاش کہا جاتاہے۔ کھو ایک علاقے کا جغرافیائ نام ہے جہاں باہر سے خاص کر وسط ایشیا کے مختلف اللسان اور مختلف النسل لوگوں کے سینکڑوں سالوں کے ملاپ اور رہن سہن کے نتیجے میں پہلے سے موجود پشاچی زبان بڑے پیمانے پر درآمدی الفاظ کے ساتھ عروج پائ جسے اب کھوار کہا جاتا ہے۔
حوالہ جات۔۔دی پٹھان، تاریخ افغانستان، پشتون نسلیات اور ہندو کش، ۔۔۔یوسفزئ پٹھان، تاجک سواتی،۔۔ ارض پاکستان۔۔۔کافرستان ایک گوگل مطالعہ۔
سرور صحرائ